دُنیا اُس کی ہے متوالی

دُنیا اُس کی ہے متوالی

جس نے اُس کی خوشبو پالی


اُس کا چہرہ اُجلا اُجلا

اُس کی آنکھیں کالی کالی


کتنا اچھا اُس کا روضہ

کتنی اچھی اُس کی جالی


میرا اُس کا ناتا جیسے

ایک سمندر ایک سوالی


اُس کے آنے سے کچھ پہلے

یہ دنیا تھی خالی خالی


اُس کا دامن بڑھ کر چُومے

پتا پتا ڈالی ڈالی


جنت کی ہر شے سے بہتر

اُس کی کملی خوشبو والی


اُس کی چوکھٹ کی مٹی سے

میں نے پیشانی چمکالی


کیسے کیسے وہ کرتا ہے

اپنی امت کی رکھوالی


اُس کے دم سے دنیا روشن

اُس کے دم سے یہ ہریالی


تعریفوں کی حد سے آگے

انجؔم اُس کی ذاتِ عالی

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

مرحلۂ شوق پھر اِک سر ہوا

اپنی گلیوں میں وہ پھراتا ہے

وہ سورج ہے سب میں ضیاء بانٹتا ہے

پہنچ ہی گیا میں وہاں روتے روتے

ہر تمنا ہی عاجزانہ ہے

فرشتوں کے دل پر بھی جس کا اثر ہے

عمر ہو میری بسر اُس شہر میں

ترا وجود ہے روشن پیام خوشبو ہے

ترا کرم ہے کہ میں سر اُٹھا کے چلتا ہوں

ترے خیال ترے نام سے لپٹ جاؤں