مرحلۂ شوق پھر اِک سر ہوا

مرحلۂ شوق پھر اِک سر ہوا

جب ہوا، جیسے ہوا بہتر ہوا


میں نے پایا ہے تجھے اپنے قریب

جب کبھی اشکوں سے دامن تر ہوا


عظمتِ انسان کا ہر واقعہ

تیرے گھر یا تیری چوکھٹ پر ہوا


گنبد خضرا نظر آیا مجھے

پھر کرم اِک بار آنکھوں پر ہوا


سوچتا ہوں میں جدا اس شہر سے

کب ہوا، کیسے ہوا، کیوں کر ہوا


تیرے قدموں سے لپٹنا ہے مجھے

روزِ اوّل یہ سبق ازبر ہوا


تیری خوشبو سے معطر دوجہاں

تیرا چرچا جا بہ جا گھر گھر ہوا


تیری یادیں دل کا حصہ بن گئیں

دِل ترے ہی پیار کا خُوگر ہوا


ہر گھڑی مجھ کو بہت بھاری لگی

ہر قدم مشکل سے مشکل تر ہوا


اب تو اذنِ باریابی دے مجھے

اب تو جینا بھی مرا دوبھر ہوا

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

زمیں سے گزرتی ہوئی آسماں تک

کوئی عارف کوئی صوفی نہیں ہے

میں بُلبل ہوں میرا چمن ہے مدینہ

عیاں اُس کی عظمت ہے اُس کی جبیں سے

ذِکر ہونٹوں پر ترا ہونے لگے

اپنی گلیوں میں وہ پھراتا ہے

وہ سورج ہے سب میں ضیاء بانٹتا ہے

پہنچ ہی گیا میں وہاں روتے روتے

ہر تمنا ہی عاجزانہ ہے

دُنیا اُس کی ہے متوالی