کوئی عارف کوئی صوفی نہیں ہے

کوئی عارف کوئی صوفی نہیں ہے

کوئی رُومی کوئی رازی نہیں ہے


ابوذر کی طرح پلکوں سے اپنی

تری چوکھٹ اگر چُومی نہیں ہے


اگرچہ ایک سے ہے ایک بڑھ کر

کوئی خوشبو ترے جیسی نہیں ہے


وہ جنت کے نہیں قابل کہ جس کی

زباں صلِّ علی کہتی نہیں ہے


جہاں پر ہو تری جلوہ نمائی

کسی کی شمع واں جلتی نہیں ہے


میں خواندہ ہوکے بھی ناخواندوں جیسا

تُو امّی ہو کے بھی اُمّی نہیں ہے


ترے در پر نہ دوں جب تک میں دستک

سوالوں کی گِرہ کھلتی نہیں ہے


مرے کس کام کی انجؔم وہ خوشبو

جو مدنی کے مدینے کی نہیں ہے

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

نئی آواز تھی لہجہ نیا تھا

سر عرشِ بریں لکھا ہوا ہے

اُسی کو بنایا گیا سب سے پہلے

سرِ بزم ہر دوسرا آتے آتے

زمیں سے گزرتی ہوئی آسماں تک

میں بُلبل ہوں میرا چمن ہے مدینہ

عیاں اُس کی عظمت ہے اُس کی جبیں سے

ذِکر ہونٹوں پر ترا ہونے لگے

مرحلۂ شوق پھر اِک سر ہوا

اپنی گلیوں میں وہ پھراتا ہے