سرِ بزم ہر دوسرا آتے آتے

سرِ بزم ہر دوسرا آتے آتے

ترا نامِ نامی سُنا آتے آتے


ابھی میری آنکھیں کھُلی بھی نہیں تھیں

سُنی میں نے تیری ثنا آتے آتے


سلام اُس کی خاطر ، درُود اُس کی خاطر

سُنی ہر طرف یہ صدا آتے آتے


زمانہ بہت دیر سے منتظر تھا

تُو آیا تو آتا گیا آتے آتے


تری ہی اطاعت کریں گے ہمیشہ

سبھی نے یہ وعدہ کیا آتے آتے

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

جھکیں اونچے اونچے شجر اُس کے آگے

قیامت کے دن اے حبیبِ خدا

نئی آواز تھی لہجہ نیا تھا

سر عرشِ بریں لکھا ہوا ہے

اُسی کو بنایا گیا سب سے پہلے

زمیں سے گزرتی ہوئی آسماں تک

کوئی عارف کوئی صوفی نہیں ہے

میں بُلبل ہوں میرا چمن ہے مدینہ

عیاں اُس کی عظمت ہے اُس کی جبیں سے

ذِکر ہونٹوں پر ترا ہونے لگے