نئی آواز تھی لہجہ نیا تھا

نئی آواز تھی لہجہ نیا تھا

ترا ہر بول کوثر میں دُھلا تھا


تری گہری حسیںِ آنکھوں میں گویا

طلوعِ صبح کا موسم رُکا تھا


نجانے کیسا منظر ہوگا جب تُو

امام الانبیاء بن کر کھڑا تھا


تُو اُمّی تھا مگر تیری جبیں پر

رسولِ اوّل و آخر لکھا تھا


ترا ہر ایک لمحہ زندگی کا

نجانے کتنی صدیوں سے بڑا تھا


تُو سب کے واسطے شہرِ محبت

تجھے سب کے لیے بھیجا گیا تھا

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

تیری اُمت پہ سایہ سلامت رہے

ہر اِک ذرّہ جہاں کا جانتا ہے

فلک کا بھلا کیا تقابل زمیں سے

جھکیں اونچے اونچے شجر اُس کے آگے

قیامت کے دن اے حبیبِ خدا

سر عرشِ بریں لکھا ہوا ہے

اُسی کو بنایا گیا سب سے پہلے

سرِ بزم ہر دوسرا آتے آتے

زمیں سے گزرتی ہوئی آسماں تک

کوئی عارف کوئی صوفی نہیں ہے