تیری اُمت پہ سایہ سلامت رہے

تیری اُمت پہ سایہ سلامت رہے

تیرا حُسنِ کرم تا قیامت رہے


تیری دیوار سے لگ کے بیٹھا رہوں

باقی دنیا کی جب تک نظامت رہے


تیرے ساغر ہمیشہ چھلکتے رہیں

تیری محفل ہمیشہ سلامت رہے


تیری خوشبو کا سیل رواں کم نہ ہو

تیری ہر ایک زندہ علامت رہے


میری آنکھیں سُلگتی برستی رہیں

میری پلکوں پہ اشکِ ندامت رہے


معجزے کم نہ ہوں تیری سرکار کے

تیرا آباد شہر کرامت رہے

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

وہی تو حُرمتِ لوح و قلم ہے

نبیّوں سے بڑھ کر نبی آگیا ہے

چلو جا کے غارِ حِرا دیکھ آئیں

زمیں تیری خاطر بچھائی گئی ہے

بشر بھی ہے وہ اور خیر البشر بھی

ہر اِک ذرّہ جہاں کا جانتا ہے

فلک کا بھلا کیا تقابل زمیں سے

جھکیں اونچے اونچے شجر اُس کے آگے

قیامت کے دن اے حبیبِ خدا

نئی آواز تھی لہجہ نیا تھا