قیامت کے دن اے حبیبِ خدا

قیامت کے دن اے حبیبِ خدا

مرا تاج ہو تیری نعلین کا


مری آنکھ جب بھی کھلے نیند سے

ترا سایہ مجھ پر ہو پھیلا ہوا


مرے سامنے ہر طرف ہر جگہ

ترا سبز گنبد ہو جلوہ نما


کسی کو نہ دیکھوں میں تیرے بغیر

کسی کو نہ چاہوں میں تیرے سوا


ترا عشق یوں مجھ پہ طاری رہے

میں کہتا پھروں ساقیا !ساقیا!


مری آنکھ دیکھے تیرے نُور کو

مرا دِل سُنے تیرے دِل کی صدا

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

بشر بھی ہے وہ اور خیر البشر بھی

تیری اُمت پہ سایہ سلامت رہے

ہر اِک ذرّہ جہاں کا جانتا ہے

فلک کا بھلا کیا تقابل زمیں سے

جھکیں اونچے اونچے شجر اُس کے آگے

نئی آواز تھی لہجہ نیا تھا

سر عرشِ بریں لکھا ہوا ہے

اُسی کو بنایا گیا سب سے پہلے

سرِ بزم ہر دوسرا آتے آتے

زمیں سے گزرتی ہوئی آسماں تک