بشر بھی ہے وہ اور خیر البشر بھی
جُھکاتا ہے سر جس کے آگے عمر بھی
ابو بکر و جبریلؑ ساتھی ہیں اُس کے
مِلے کیسے کیسے اُسے ہم سفر بھی
فرشتوں سے بہتر ہیں اُس کی دعائیں
فرشتوں سے بہتر ہے اُس کی سحر بھی
دو عالم کی وسعت ہے قدموں کے نیچے
دو عالم پہ رہتی ہے اُس کی نظر بھی
اُترتا چلا جاتا ہے دِل کے اندر
کلام اُس کا میٹھا بھی ہے مختصر بھی
ستاروں سے بڑھ کر حسیں شہر اُس کا
ستاروں سے چمکیلے ہیں بام و در بھی
خدا کی قسم سارے ارض و سماء میں
نہیں ایسا مالک نہیں ایسا گھر بھی
بہت سیدھا سادہ ہے پیغام اُس کا
جو سچا بھی ہے اور ہے پُر اثر بھی
تھکی ہاری اُمت کی خاطر ہی انجؔم
وہ خود ایک سایہ ہے خود اِک شجر بھی
شاعر کا نام :- انجم نیازی
کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو