اپنی گلیوں میں وہ پھراتا ہے

اپنی گلیوں میں وہ پھراتا ہے

سارے منظر حسیں دکھاتا ہے


ہر کسی کی بھلا کہاں قسمت

جس کو چاہے اسے بلاتا ہے


جو بھی آتا ہے اس کی چوکھٹ پر

اس کی خوشبو میں ڈوب جاتا ہے


سبز گنبد کو دیکھ کر سورج

کس عقیدت سے مسکراتا ہے


جس کی پلکیں وہاں نہیں جھکتیں

اس کی حالت پہ رحم آتا ہے


مانگنے کا جسے سلیقہ ہو

اپنی پلکیں وہاں بچھاتا ہے


جس مین اس کی بھلا نہ ہو خوشبو

ایسی جنت میں کون جاتا ہے


ایسا آقا یے جو غلاموں کے

ہر مصیبت میں کام آتا ہے


اس کی دنیا کا ہر نیا جھونکا

کتنا اونچا مجھے اڑاتا ہے


وہ ہے رحمت کا اک جہاں انجم

میرے دل میں کہاں سماتا ہے

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

کوئی عارف کوئی صوفی نہیں ہے

میں بُلبل ہوں میرا چمن ہے مدینہ

عیاں اُس کی عظمت ہے اُس کی جبیں سے

ذِکر ہونٹوں پر ترا ہونے لگے

مرحلۂ شوق پھر اِک سر ہوا

وہ سورج ہے سب میں ضیاء بانٹتا ہے

پہنچ ہی گیا میں وہاں روتے روتے

ہر تمنا ہی عاجزانہ ہے

دُنیا اُس کی ہے متوالی

فرشتوں کے دل پر بھی جس کا اثر ہے