اُن کے مہکے حرم کی تو کیا بات ہے
اُن کے جاہ و حشم کی تو کیا بات ہے
چل کے جس راہ پر اُن کا دیدار ہو
ایسی راہِ عدم کی تو کیا بات ہے
جس میں آقاْ مرے، اشک شوئی کریں
ایسے رنج و الم کی تو کیا بات ہے
اُن کی خاطر جو میداں میں جھیلے گئے
ایسے ظُلم و ستم کی تو کیا بات ہے
جن میں پالا گیا اُن کے حَسنَین کو
ایسے ناز و نِعَم کی تو کیا بات ہے
اِک نظر جس پہ ڈالی ، غنی کر دیا
اُن کی چشمِ کرم کی تو کیا بات ہے
آپْ کے در پہ جا کر جو بھیگی شہا !
میری اس چشمِ نَم کی تو کیا بات ہے
وہ جو خیبر میں حیدر کو سونپا گیا
ایسے جنگی عَلَم کی تو کیا بات ہے
اِک بِلال اُن کا رُتبے میں ارفع بہت
اُن کے سارے خُدَم کی تو کیا بات ہے
جس پہ جھولی بھریں سارے شاہ و گدا
ایسے بابِ کرم کی تو کیا بات ہے
جن کے آگے سرِ سروراں خَم رہا
اُن کے جاہ و حَشَم کی تو کیا بات ہے
بُھوک میں جس پہ پتّھر بھی باندھے گئے
ایسے قانع شِکَم کی تو کیا بات ہے
جو کہا آپ نے ، ہے وہی قولِ حق
ایسے قولِ اَتَمّ کی تو کیا بات ہے
مُقتدی جن کے ہیں انبیا و رُسُل
ایسے شاہِ اُمم کی تو کیا بات ہے
بے طلب سب کو سب کچھ ملا آپ سے
اُن کے لطف و کرم کی تو کیا بات ہے
جن کے اصحاب و عِترت کا ثانی نہیں
اُس جمیلِ شِّیَم کی تو کیا بات ہے
ہیں جلیل اُن کی ہر بات میں حِکمتیں
اُن کی شانِ حِکَم کی تو کیا بات ہے
شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل
کتاب کا نام :- لمعاتِ مدحت