وصال کی جو دلوں میں رہتی ہیں غاریں روشن

وصال کی جو دلوں میں رہتی ہیں غاریں روشن

تو ہجر میں اُن کو زندہ رکھتی ہیں آہیں روشن


ہے اُن کی سیرت ، ہماری خاطر نشانِ منزل

کہ کر رہی ہے جو اہلِ ایماں کی راہیں روشن


اُنہی کے رُخ کی ضیا سے چمکا ہے دن کا چہرہ

اُنہی کی زلفوں سے ہو رہی ہیں یہ راتیں روشن


نظر نے چوما ہے جب سے پیارے نبی کا روضہ

سو تب سے رہنے لگی ہیں اپنی نگاہیں روشن


یہ خاکِ طیبہ بنا کے دیکھو نظر کا سُرمہ

یقیں ہے مُجھ کو سدا رہیں گی یہ آنکھیں روشن


ہیں صُبحیں روشن حضورِ اکرم کے دم قدم سے

ہمیں یقیں ہے اُنہی کے دم سے ہیں شامیں روشن


جلیل ، اُن کے دہن کی باتوں کا یہ ثمر ہے

کہ آج بزمِ سخن میں ہوتی ہیں باتیں روشن

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- لمعاتِ مدحت

دیگر کلام

اُن کے مہکے حرم کی تو کیا بات ہے

غُلامی میں رہے پُختہ تو اُمّیدِ صلہ رکھنا

لو آیا نبی کا دیار اللہ اللہ

ہر دم یہی دُعا ہے میری ، مرے خُدا سے

میری محبتوں کا مُجھے بھی صلہ دیا

جو بھی درِ رسول کے ہو جائے روبرو

رویّہ بد زبانی کا وہ اپنانے نہیں دیتے

بُلا لیجے گا عاصی کو بھی در پر یا رسول اللہ

مری خوش نصیبی کی یہ انتہا ہے

ہمسفر جس جگہ رُک گیا آپ کا