وہ حجاب روضہء پاک ہو کہ نقابِ سبز ہو درمیاں

وہ حجاب روضہء پاک ہو کہ نقابِ سبز ہو درمیاں

انہیں ڈھونڈلے گی نظر میری وہ چھپیں جا کے جہاں جہاں


ہیں میرے حضور کی منزلیں کبھی یہ جہاں کبھی وہ جہاں

ابھی اپنی خواب گاہ میں ابھی سوئے عرش رواں دواں


وہ نظر سے دُور تو ہیں مگر مجھے ان کی دید نصیب ہے

کبھی با نقاب نہاں نہاں ‘ کبھی بے نقاب عیاں عیاں


ہے مری سماعتوں پہ بھی ‘ یہ کرم صدائے حضور کا

کبھی لب کشا ہیں نماز میں ‘ کبھی خوشنوا ہیں اذاں اذاں


کبھی اس حرم کے جوار میں ‘ کبھی اس حرم کے دیار میں

درِ مصطفیٰ ؐ کی تلاش میں ‘ میں بھٹک رہا تھا کہاں کہاں


کہ خدا کے فضل سے شکر ہے ‘ میں دیارِ پاک پہنچ گیا

کبھی تیز گام و سبک قدم ‘ کبھی پا پیادہ کشاں کشاں


میں مدینے آتو گیا مگر ‘ انہیں منہ دکھاؤں گا کس طرح

میں خجل ہوں اپنی خطاؤ ں پر ‘ مِر ا کانپتا ہے رواں روں


وہ بڑے کریم و رحیم ہیں ‘ مجھے بخش دیں گے یقین ہے

جو حضورؐ کو نظر آئے گا ‘ مِرا سیلِ اشکِ رواں رواں


جو حضورؐ جلوہ نما ہوئے ‘ تو نصیبِ دہر چمک گیا

تھا چراغِ دیں بجھا بجھا ‘ تھی جبینِ وقت دھواں دھواں

شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم

کتاب کا نام :- زبُورِ حرم

دیگر کلام

کبھی ان کی خدمت میں جا کے تو دیکھو

دنیا میں جو فردوس عطا ہم کو ہوئی ہے

سوتے میں نعتِ پاک ہوئی ہے کبھی کبھی

جو اسمِ گرامی شرفِ لو ح و قلم ہے

اپنی ڈیوڑھی کا بھکاری مجھے کردیں شاہا

یہاں سے گرچہ مدینے کا فاصلہ ہے بہت

ہر نام سے جو نام تقدس میں بڑا ہے

یہ فیضِ ہنر ہے نہ یہ اعجاز قلم ہے

جا کے دروازے پہ اوروں کے صدا دوں کیسے

ہم نعت نہیں کہتے عبادات کریں ہیں