یہاں سے گرچہ مدینے کا فاصلہ ہے بہت

یہاں سے گرچہ مدینے کا فاصلہ ہے بہت

خدا کا شکر ابھی مجھ میں حوصلہ ہے بہت


کہیں بھی ہوں میں دیارِ نبیؐ میں رہتا ہوں

کسی کو ملنا ہے مجھ سے تو یہ پتہ ہے بہت


بجز خدا کوئی اُس سے بڑا ہوا ہے نہ ہو

وہ ذاتِ پاک جو محبوبِ کبریا ہے بہت


اُسی کے دامن رحمت سے واسطہ رکھو

گناہ گاروں کے حق میں یہ واسطہ ہے بہت


خدایا ہم کو عطا ہو متاعِ عشقِ رسول

نجات چاہیے تم کو تو یہ دعا ہے بہت


سبھی کا عقدہ کشا ہے اگرچہ ان کا کرم

جو بے سہارا ہیں ان کو نوازتا ہے بہت


ہے کون جس کو وہاں سے ملی نہ ہو خیرات

مگر جو کچھ نہیں کہتے انہیں ملا ہے بہت


دیارِ پاک کی عظمت بیان ہو کیسے

کہ ذرّہ ذرّہ بھی اس شہر کا بڑا ہے بہت


حضور کو مِری نعتیں سلام کر آئیں

مرے خلوص سخن کا یہی صلہ ہے بہت

شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم

کتاب کا نام :- زبُورِ حرم

دیگر کلام

دنیا میں جو فردوس عطا ہم کو ہوئی ہے

سوتے میں نعتِ پاک ہوئی ہے کبھی کبھی

جو اسمِ گرامی شرفِ لو ح و قلم ہے

اپنی ڈیوڑھی کا بھکاری مجھے کردیں شاہا

وہ حجاب روضہء پاک ہو کہ نقابِ سبز ہو درمیاں

ہر نام سے جو نام تقدس میں بڑا ہے

یہ فیضِ ہنر ہے نہ یہ اعجاز قلم ہے

جا کے دروازے پہ اوروں کے صدا دوں کیسے

ہم نعت نہیں کہتے عبادات کریں ہیں

فراقِ طیبہ میں دن بہ مشکل تمام کرتی ہیں میری آنکھیں