یہ غم نہیں ہمیں روزِ حساب کیا ہوگا

یہ غم نہیں ہمیں روزِ حساب کیا ہوگا

کہ واصفانِ نبی پر عذاب کیا ہوگا


مجھے یقین ہے ناخوش نہیں ہیں مجھ سے حضورؐ

میں نعت کہتا ہوں مجھ پر عتاب کیا ہوگا


گناہ گار تو میں ہوں ‘ مگر حضورؐ کا ہوں

حضورؐ ہوں گے تو مجھ پر عذاب کیا ہوگا


میرے تو ہاتھ میں ہوگا حضورؐ کا دامن

مرے گناہوں کا اس دن حساب کیا ہوگا


درود پاک کا میں ورد ہی نہ چھوڑوں گا

تو کوئی مجھ سے سوال و جواب کیا ہوگا


دھرا ہی کیا ہے مرے پاس آنسوؤں کے سوا

گداگروں سے حساب و کتاب کیا ہوگا


مرے تو سر پہ ہے تاجِ غلامئ سرکار

مری طرح کوئی عزّت مآب کیا ہوگا


خطاب ہوتے ہیں شاہی مصاحبوں کے لیے

میں بادشاہ ہوں ‘ میرا خطاب کیا ہوگا


میں لاکھ شانِ نبیؐ میں کہوں قصیدہ کوئی

وہ حسب شانِ رسالت مآب کیا ہوگا

شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم

کتاب کا نام :- زبُورِ حرم

دیگر کلام

ہے دیار نبی ﷺ تو ہمارا وطن

قرارِ دل و جاں مدینے کی گلیاں

نبیؐ کا نام بھی آرام جاں ہے

صد شکر اتنا ظرف مری چشمِ تر میں ہے

حالِ دل کس کو سناؤں آپ کے ہوتے ہوئے

نبی کا روضہء اقدس جہاں ہے

بسا ہوا ہے نبی کا دیار آنکھوں میں

میں سوجاؤں یا مصطفٰے کہتے کہتے

خاتم الانبیاء رسول اللہ ﷺ

میں ایک عاصی رحمت نگر حضورؐ کا ہوں