میں سوجاؤں یا مصطفٰے کہتے کہتے

میں سوجاؤں یا مصطفٰے کہتے کہتے

کھلے آنکھ صل علی ٰ کہتے کہتے


ستم پہ ستم سہ گئے دشمنوں کے

حبیبِ خدا یا خدا کہتے کہتے


گزرتے تھے کانٹؤں بھرے راستوں سے

رسولِ خدا مرحبا کہتے کہتے


ہوئے سرخرو آپ ہر معرکے میں

فقط ربنا ربنا کہتے کہتے


شہِ دو عالم نے نانِ جویں سے

بھرا پیٹ شکرِ خدا کہتے کہتے


اندھیروں میں ہم نے کیا ہے اجالا

عقیدت سے نور الہدیٰ کہتے کہتے


دلِ مضطرب کو سکوں آگیا ہے

شب و روز یا مجتبیٰ کہتے کہتے


کٹے کاش اقبؔال اب عمر ساری

فقط نعتِ خیر الوریٰ کہتے کہتے

شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم

کتاب کا نام :- زبُورِ حرم

دیگر کلام

صد شکر اتنا ظرف مری چشمِ تر میں ہے

حالِ دل کس کو سناؤں آپ کے ہوتے ہوئے

یہ غم نہیں ہمیں روزِ حساب کیا ہوگا

نبی کا روضہء اقدس جہاں ہے

بسا ہوا ہے نبی کا دیار آنکھوں میں

خاتم الانبیاء رسول اللہ ﷺ

میں ایک عاصی رحمت نگر حضورؐ کا ہوں

ہر چند بندگی کی جزا ہی کچھ اور ہے

شمس و قمر کی اور نہ اقصیٰ کی روشنی

مدینہ کی زمیں طرفہ زمیں ہے