ہر چند بندگی کی جزا ہی کچھ اور ہے

ہر چند بندگی کی جزا ہی کچھ اور ہے

تقلیدِ مصطفیٰ ﷺ کا صلہ ہی کچھ اور ہے


لطفِ غزل بھی خوب ہے اپنی جگہ مگر

توصیفِ مصطفیٰ کا مزا ہی کچھ اور ہے


جنت کی نعمتوں سے میں منکر نہیں ‘ مگر

شہرِ نبیﷺ کی آب و ہوا ہی کچھ اور ہے


عشقِ رسولؐ کیا ہے مسیحا کو کیا خبر

اس دردِ جانفزا کی دوا ہی کچھ اور ہے


طوفِ حرم کے وقت بھی تھا طیبہ دھیان میں

دربارِ مصطفیٰ کی فضا ہی کچھ اور ہے


شاہی سے بے نیاز‘ فقیری میں سرفراز

اس در کے سائلوں کی ادا ہی کچھ اور ہے


اس در پہ بھیک ملتی ہے بے حد و بے طلب

سرکارؐ کا مزاج عطا ہی کچھ اور ہے


قدموں سے اُن کے بڑھ کے لپٹ جاؤ عاصیو

آقاؐ کی شانِ عفوِ خطا ہی کچھ اور ہے


عمرہ ہو اس سفر کا سبب یا مشاعرہ

اس شوق اور کشش کی بنا ہی کچھ اور ہے


ملکِ حجاز‘ شہرِ نبیﷺ بابِ جبرئیل

اقباؔل نعت گو کا پتا ہی کچھ اور ہے

شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم

کتاب کا نام :- زبُورِ حرم

دیگر کلام

نبی کا روضہء اقدس جہاں ہے

بسا ہوا ہے نبی کا دیار آنکھوں میں

میں سوجاؤں یا مصطفٰے کہتے کہتے

خاتم الانبیاء رسول اللہ ﷺ

میں ایک عاصی رحمت نگر حضورؐ کا ہوں

شمس و قمر کی اور نہ اقصیٰ کی روشنی

مدینہ کی زمیں طرفہ زمیں ہے

یہ نعت مصطفیٰ کا معجزہ ہے

گنہ گاروں کو نبیﷺ کا آستاں بخشا گیا

یامحمد مصطفیٰ محبوبِ رب العالمیں