آج اشکوں سے کوئی نعت لکھوں تو کیسے

آج اشکوں سے کوئی نعت لکھوں تو کیسے

کوئی آنسو بھی مرے پوچھنے والا نہ رہا


غم کی تصویریں لفظوں سے بنا تا ہوں مگر

وہ مرا دستِ ہنر دیکھنے والا نہ رہا


آؤ ہم مل کے چلیں سُوئے مدینہ اک بار

اس سخن کا مرے اب کوئی حوالہ نہ رہا


وہ رفیقِ سفرِ شہرِ مدینہ ہے کہاں

رہ گیا رختِ سفر قافلے والا نہ رہا


رنگ جذبات کے سب اُڑ گئے لفظوں سے مرے

سبزہ سبزہ نہ رہا لالہ بھی لالہ نہ رہا


اس پرستارِ مدینہ کے چلے جانے سے

لذتِ زیست کے ایواں میں اُجالا نہ رہا

شاعر کا نام :- حضرت ادیب رائے پوری

کتاب کا نام :- خوشبوئے ادیب

دیگر کلام

مسلمانوں نہ گھبراؤ کورونا بھاگ جائے گا

حُکمِ ربُ العُلیٰ نماز پڑھو

بہ حکمِ رب کریں گے مدحتِ سرکار جنت میں

یہ پہلی شب تھی جدائی کی

چار مصرعے تیری ممتا پر مرے فن کا نچوڑ

میں ہی شمع بن کے جلتا ہوں مزارِ دوست پر

وہ اُٹھ گیا کہ تکلّم تھا جن کا نعتِ رسول

مارکس کے فلسفہء جہد شکم سے ہم کو

مارکس کے فلسفہء جہد شکم سے ہم کو

مارکس کے فلسفہء جہد شکم سے ہم کو