وہ اُٹھ گیا کہ تکلّم تھا جن کا نعتِ رسول

وہ اُٹھ گیا کہ تکلّم تھا جن کا نعتِ رسول

وہ جن کی ذات پہ ہر دم تھا التفاتِ رسول


شجر پہ ذکرِ محمد کے عند لیب تھا وہ

اور اپنے لہجہ میں اِک منفرد ادیبؔ تھا وہ


لبوں پہ لفظ جو آئے وہ پھول بن کے کِھلے

چراغ جتنے جلائے وہ نعت بن کے جلے


لقد خلقنا الانسانَ کا جمال تھے وہ

مقامِ احسنِ تقویم کی مثال تھے وہ


مزاج ان کا ثنا گوئی ابتدا سے تھا

نصیب ان کو نسب آلِ مصطفیٰ سے تھا


وہ ڈھونڈا کرتے تھے الفاظ نعت کے پیہم

اب ان کو ڈھونڈیں گے الفاظ نعت کے ہر دم


پہن کے عشقِ محمد کا وہ لباس گئے

خدا کے گھر سے جو نکلے ، خدا کے پاس گئے

شاعر کا نام :- حضرت ادیب رائے پوری

کتاب کا نام :- خوشبوئے ادیب

دیگر کلام

بہ حکمِ رب کریں گے مدحتِ سرکار جنت میں

یہ پہلی شب تھی جدائی کی

چار مصرعے تیری ممتا پر مرے فن کا نچوڑ

آج اشکوں سے کوئی نعت لکھوں تو کیسے

میں ہی شمع بن کے جلتا ہوں مزارِ دوست پر

مارکس کے فلسفہء جہد شکم سے ہم کو

مارکس کے فلسفہء جہد شکم سے ہم کو

مارکس کے فلسفہء جہد شکم سے ہم کو

دیارِ جاں میں

اے کہ تُو رگ ہائے ہستی میں ہے مثلِ خُوں رواں