دیارِ جاں میں

دیارِ جاں میں

سنہرے موسم اُتر رہے ہیں


میں زد لمحوں

سیاہ سایوں سے اپنا پیچھا


چھڑا چکا ہوں

پناہ میں ان کی


آچکا ہوں

میں روشنی میں


نہار ہا ہوں

کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی

دیگر کلام

میں ہی شمع بن کے جلتا ہوں مزارِ دوست پر

وہ اُٹھ گیا کہ تکلّم تھا جن کا نعتِ رسول

مارکس کے فلسفہء جہد شکم سے ہم کو

مارکس کے فلسفہء جہد شکم سے ہم کو

مارکس کے فلسفہء جہد شکم سے ہم کو

اے کہ تُو رگ ہائے ہستی میں ہے مثلِ خُوں رواں

ماہِ رمضاں کی فرقت نے مارا

الوداع اے ماہِ رمضاں الوداع

اہلِ چمن اٹھو کہ پھر آئی بہار آج

فروری 1946 کی یاد میں