فروری 1946 کی یاد میں

شہادتوں کے سندیسے سنائے جاتے ہیں

حسین ابن علی یاد آئے جاتے ہیں


سکوتِ بحر میں طوفان جیسے آتا ہے

کچھ اس طرح سے قدم ہم بڑھائے جاتے ہیں


خدا گواہ ہے مومن کے عزمِ زندہ سے

زمین و لوح و قلم تھرتھرائے جاتے ہیں


لرز رہا ہے نظامِ جہانِ فرسوده

نئے نظام کے آثار پائے جاتے ہیں


الم ہیں غم ہیں ستم ہیں تو کیا ہوا اعظم

یہ گیت وہ ہیں جو ہنس ہنس کے گائے جاتے ہیں

شاعر کا نام :- محمد اعظم چشتی

کتاب کا نام :- کلیاتِ اعظم چشتی

دیگر کلام

دیارِ جاں میں

اے کہ تُو رگ ہائے ہستی میں ہے مثلِ خُوں رواں

ماہِ رمضاں کی فرقت نے مارا

الوداع اے ماہِ رمضاں الوداع

اہلِ چمن اٹھو کہ پھر آئی بہار آج

ملت کے نگہباں تیرا اللہ مددگار

جسے جو چاہیے اے کبریا دے

خزاں کی شام کو صبح ِ بہار تو نے کیا

اٹھ شیرا پاکستان دیا ہن جاگ تے ہو ہشیار اڑیا

وطن اپنے دے گیت گاندا چلاجا