جسے جو چاہیے اے کبریا دے

جسے جو چاہیے اے کبریا دے

مجھے بس الفتِ خیر الورا دے


جگر کو سوز دے دل کو تڑپ دے

نظر کو تابِ دیدِ مصطفیٰ دے


اسیرِ لالہ و گل ہوگئے ہیں

خرد مندوں کو کچھ اپنا پتہ دے


عطا کر مجھ کو وہ عرفان و مستی

جو مجھ کو مجھ سے بیگانہ بنادے


جبیں سا ہیں جہاں شاہانِ عالم

مجھے بھی وہ درِ اقدس دکھا دے


رہے عکسِ جمالِ یار جس میں

مرے دل کو وہ آئینہ بنادے


جب اعظم ہر جگہ موجود ہے وہ

کوئی اس کا پتہ دے بھی تو کیا دے

شاعر کا نام :- محمد اعظم چشتی

کتاب کا نام :- کلیاتِ اعظم چشتی

دیگر کلام

ماہِ رمضاں کی فرقت نے مارا

الوداع اے ماہِ رمضاں الوداع

اہلِ چمن اٹھو کہ پھر آئی بہار آج

فروری 1946 کی یاد میں

ملت کے نگہباں تیرا اللہ مددگار

خزاں کی شام کو صبح ِ بہار تو نے کیا

اٹھ شیرا پاکستان دیا ہن جاگ تے ہو ہشیار اڑیا

وطن اپنے دے گیت گاندا چلاجا

سانوں آن بچونی آندی اے سانوں ملک بچونا اوندا اے

ہستئ لازوال ہیں ہَم لوگ