الوداع اے ماہِ رمضاں الوداع

الوداع اے ماہِ رمضاں الوداع

الوداع اے جانِ ایماں الوداع


تیری راتوں کی عبادت بھی مِلی

تیری صُبحوں کی مسرت بھی ملی


بھُوک میں رہ رہ کے لذّت بھی ملی

اور پھر فرقاں کی دولت بھی ملی


تیری آمد سے ہمیں عزّت ملی

دین و دنیا کی ہمیں عظمت ملی


میری عزت تیری عظمت پر نثار

میرا ایماں تیری شوکت پر نثار


تیری گردِ راہ تاجِ اولیا

تیرا ذکرِ خیر جانِ اصفیا


سال بھر تیرا رہے گا انتظار

ہم کو تڑپاتا رہے گا تیرا پیار


الوداع اے ماہ رمضاں الوداع

الوداع اے جانِ ایماں الوداع

شاعر کا نام :- محمد اعظم چشتی

کتاب کا نام :- کلیاتِ اعظم چشتی

دیگر کلام

مارکس کے فلسفہء جہد شکم سے ہم کو

مارکس کے فلسفہء جہد شکم سے ہم کو

دیارِ جاں میں

اے کہ تُو رگ ہائے ہستی میں ہے مثلِ خُوں رواں

ماہِ رمضاں کی فرقت نے مارا

اہلِ چمن اٹھو کہ پھر آئی بہار آج

فروری 1946 کی یاد میں

ملت کے نگہباں تیرا اللہ مددگار

جسے جو چاہیے اے کبریا دے

خزاں کی شام کو صبح ِ بہار تو نے کیا