بصارت منجمد ہے

بصارت منجمد ہے

اور زباں اک بر ف پارے کی طرح سُن ہے


مرے یخ ذائقے میں ریت کی طرح سُن ہے

سماعت اس قدر بے دست وپا ہے


صرف سناٹے کی مبہم اور پیہم چیخ اس کی دسترس میں ہے

زمیں کو سونگھتا ہوں تو خلا کی باس آتی ہے


فقط اِک حس ابھی زندہ ہے

مستقبل کے لمس دلربا کی حِس !


مسلسل اِرتقا کی حِس !

خدا کی حِس !

شاعر کا نام :- احمد ندیم قاسمی

کتاب کا نام :- انوارِ جمال

دیگر کلام

دورنِ آگہی

ریت صحراؤں کی‘ تپتی ہے تو چِلّا تی ہے :

خدایا!

زمین آدھی تاریک ہے

میں اس رات کی بے ازل

ہمارے یہ روز و شب عجب ہیں

میں قرآں پڑھ چکا تو اپنی صورت

ایسی دنیا سے ہمیں کوئی توقع کیا ہو

بہت شدید تشنج میں مبتلا لوگو!

راتوں کی بسیط خامشی میں