ایسی دنیا سے ہمیں کوئی توقع کیا ہو

ایسی دنیا سے ہمیں کوئی توقع کیا ہو

جس میں وجدان پہ ہو عقل کی ضد کا الزام


عقل انسان کے پیکر میں تو محبوس نہیں

اور وجدان ہے اس عقل کی پرواز کا نام


سوچتے سوچتے آجاتے ہیں ایسے پل بھی

جب پگھل جاتا ہے یہ عالمِ اشیا کا نظام


اور ہم لوگ خلا تا بہ خلا دیکھتے ہیں

جس طرف دیکھتے ہیں ‘ صرف خدا دیکھتے ہیں

شاعر کا نام :- احمد ندیم قاسمی

کتاب کا نام :- انوارِ جمال

دیگر کلام

زمین آدھی تاریک ہے

میں اس رات کی بے ازل

بصارت منجمد ہے

ہمارے یہ روز و شب عجب ہیں

میں قرآں پڑھ چکا تو اپنی صورت

بہت شدید تشنج میں مبتلا لوگو!

راتوں کی بسیط خامشی میں

جُھکتے ہیں سَرکَشوں کے شب و روز سَر یہاں

حجرہء خیر الورا، غارِ حرا

عشق اللہ تعالیٰ بھی ہے