عشق اللہ تعالیٰ بھی ہے

عشق اللہ تعالیٰ بھی ہے انساں بھی ہے عشق

عشق آئینہ بھی ہے دیدہ حیراں بھی ہے عشق


عشق جنت بدر آدم کو کرا دیتا ہے

عشق نمرود کا دوزخ بھی بجھا دیتا ہے


عشق نے فاصلہء وقت کی سیّاحی کی

کشتی نوح کی بھی عشق نے ملّاحی کی


عشق قرآن بھی ہے وجد بھی وجدان بھی ہے

صرف دریا نہیں طغیانی و طوفان بھی ہے


سمت بھی جادہ بھی ہے راہ نما بھی ہے عشق

عشق منبر ہی نہیں غارِ حرا بھی ہے عشق


عشق بوبکر و عمر عشق ہے عثمان و علی کرم

عشق کی شمع بھی خوشبو ہے پتنگا بھی کلی


عشق اویس قرنی ، بوذر و سلمان ہے عشق

آزمائش ہے شکیبائی ہے پہچان ہے عشق


عشق کانٹوں پہ لگا دیتا ہے خیمہ اپنا

عشق دے مارتا ہے سنگ پہ شیشہ اپنا


چیخ اٹھے صبر بھی ، سینے پہ وہ سِل رکھتا ہے

عشق آواز نہیں شعلہء دل رکھتا ہے

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- صاحبِ تاج

دیگر کلام

ایسی دنیا سے ہمیں کوئی توقع کیا ہو

بہت شدید تشنج میں مبتلا لوگو!

راتوں کی بسیط خامشی میں

جُھکتے ہیں سَرکَشوں کے شب و روز سَر یہاں

حجرہء خیر الورا، غارِ حرا

چل پڑو جانبِ حرم لوگو

قرب کا راستہ ہے دعا

ہر دن ہے دعا ہر رات دعا

دنیا سے دین ، دین سے دنیا سنوار دے

یہ جہاں اور آخرت کی زندگی