جُھکتے ہیں سَرکَشوں کے شب و روز سَر یہاں

جُھکتے ہیں سَرکَشوں کے شب و روز سَر یہاں

رہتا ہے نُورِ حسنِ ازل جلوہ گر یہاں


ہے امتیاز مرگ و حیات ایک دِ ل لگی

پاتا نہیں ہوں اپنے نفس کی خبر یہاں


ہوتی ہیں دو جہاں پہ نگاہیں مری محیط

ملتی ہے جب کسی کی نظر سے نظر یہاں


جن کے قدم جرس کی صدا پر نہ اُٹھ سکے

کرتے ہیں پل میں کون و مکاں کا سفر یہا ں


مذہب بھی اپنے حال پہ رہتا ہے اشکبار

منطق بھی ڈال دیتی ہے اپنی سِپر یہاں


جس کی تلاش کرتے رہے لوگ عرش پر

دِل سے نکل کے ہنستا ہے وہ سیم بر یہاں


ایک ایک پل ہے زندگئ جادواں ندیم ؔ

پاتا ہوں عمرِ خضر کو بھی مختصر یہاں

شاعر کا نام :- احمد ندیم قاسمی

کتاب کا نام :- انوارِ جمال

دیگر کلام

ہمارے یہ روز و شب عجب ہیں

میں قرآں پڑھ چکا تو اپنی صورت

ایسی دنیا سے ہمیں کوئی توقع کیا ہو

بہت شدید تشنج میں مبتلا لوگو!

راتوں کی بسیط خامشی میں

حجرہء خیر الورا، غارِ حرا

عشق اللہ تعالیٰ بھی ہے

چل پڑو جانبِ حرم لوگو

قرب کا راستہ ہے دعا

ہر دن ہے دعا ہر رات دعا