میں قرآں پڑھ چکا تو اپنی صورت

میں قرآں پڑھ چکا تو اپنی صورت ہی نہ پہچانی

مرے ایمان کی ضد ہے مرا طرزِ مسلمانی


ہے صدیوں سے بسیرا مسندِ اَضداد پر میرا

مرے اعمال جامد ہیں ‘ مرے اقوال طوفانی


ارادے منفعل ہیں‘ آرزوئیں مضمحل میری

عدوئے ارتقا ہے میرے روز و شب کی یکسانی


عجب کیا ہے ‘ مجھے میرے مقاصد ہی سے اُکتادے

مرا ذوقِ خود آرائی ‘ مرا شوقِ تن آسانی


خدا اس پر بھی ‘ جانے کیوں ‘ افق پر مسکراتا ہے

قبائے شب سے جب چھنتی ہے صبحوں کی زرافشانی

شاعر کا نام :- احمد ندیم قاسمی

کتاب کا نام :- انوارِ جمال

دیگر کلام

خدایا!

زمین آدھی تاریک ہے

میں اس رات کی بے ازل

بصارت منجمد ہے

ہمارے یہ روز و شب عجب ہیں

ایسی دنیا سے ہمیں کوئی توقع کیا ہو

بہت شدید تشنج میں مبتلا لوگو!

راتوں کی بسیط خامشی میں

جُھکتے ہیں سَرکَشوں کے شب و روز سَر یہاں

حجرہء خیر الورا، غارِ حرا