میں قرآں پڑھ چکا تو اپنی صورت ہی نہ پہچانی
مرے ایمان کی ضد ہے مرا طرزِ مسلمانی
ہے صدیوں سے بسیرا مسندِ اَضداد پر میرا
مرے اعمال جامد ہیں ‘ مرے اقوال طوفانی
ارادے منفعل ہیں‘ آرزوئیں مضمحل میری
عدوئے ارتقا ہے میرے روز و شب کی یکسانی
عجب کیا ہے ‘ مجھے میرے مقاصد ہی سے اُکتادے
مرا ذوقِ خود آرائی ‘ مرا شوقِ تن آسانی
خدا اس پر بھی ‘ جانے کیوں ‘ افق پر مسکراتا ہے
قبائے شب سے جب چھنتی ہے صبحوں کی زرافشانی
شاعر کا نام :- احمد ندیم قاسمی
کتاب کا نام :- انوارِ جمال