ب کے برسات عجب طور

اب کے برسات عجب طور سے گزری مجھ پر

بارشِ سنگ نے دھرتی کو دُھنک ڈالا ہے


بوندیں یوں گرتی ہیں ‘ فولاد کی چادر پہ چٹانیں جیسے

دور تک پھیلتی وسعت میں جو تصویریں بنائی تھیں کسانوں نے


ہری ‘ زرد ‘ سنہری ‘ بُھوری

ان میں دَر آئی ہیں معصوم لہو کی دھاریں


اور انسان

وہ تخلیق کا شاہکار عظیم


اُس کے تو چیتھڑے اُڑتے ہوئے دیکھے میں نے

کچھ بزرگوں نے یہ ارشاد کیا ہے


کہ یہ سب قہرِ خداوندی ہے !

اور کل خواب میں ‘ جب


خالقِ ارض و سما سے مری مڈبھیڑ ہوئی ‘ تو میں نے

سجدے کے بعد ‘ ادب سے یہ شکایت کردی :


"۔۔۔ تُو فقط قہر نہیں ‘ مہر بھی ہے

پھر یہ شاداب زمینوں کے اُدھڑتے ہوئے بخیئے کیا ہیں ؟۔۔


اور آفاق در آفاق اُمڈتی ہوئی آواز کی یہ گونج سی دامانِ سماعت پر گری

"پھول جس شاخ پہ مرجھاتا ہے


پھر اُسی شاخ پہ اُگ آتا ہے !"

شاعر کا نام :- احمد ندیم قاسمی

کتاب کا نام :- انوارِ جمال

دیگر کلام

یارب ہمیں بلندیٔ فکر و خیال دے

مجھے نہ مژدہء کیفیتِ دوامی دے

خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اُترے

یارب ‘ مرے وطن کو اِک ایسی بہار دے

سحر کے وقت

بو لنے دو

اے خدا ‘ دِل تو آئنہ سا تھا

دورنِ آگہی

ریت صحراؤں کی‘ تپتی ہے تو چِلّا تی ہے :

خدایا!