وہ جو ایک چیز پسِ پردہء ظاہر ہے

وہ جو ایک چیز پسِ پردہء ظاہر ہے

وہ کیا ہے ؟


کون باطن کے نشیبوں کو کھنگالے

کہ جو باطن میں اترتے ہیں


وہ واپس نہیں آنے پاتے

اور یہ چیز بلاتی ہے مجھے


دِ ن کا ہنگامہ ہو یا رات کا سناٹا ہو

ایک آواز


مسلسل

مرے کانوں سے گزر کر


مرے وجدان میں گھُل جاتی ہے

اور پھر گونجتا ہے میرا وجود


کون ہے تو َ؟

کہ ترے مس میں جو حِدت ہے


مری روح کو کھُولاتی ہے

کون ہے تُو؟


کہ مرے غرفہء باطن پہ

تری حلقہ زنی نے


مجھے اک عمر سے سونے نہ دیا

کوئی احساس ہے تُو


یا کوئی جذبہ ہے

کوئی وہم ہے


آسیب ہے

آخر کیا ہے ؟


تُو کہیں میرا یہ بے چین تجسّس تو نہیں

کہ مجھے کس نے سزا دی ہے جئے جانے کی


اور مرنا بھی ضروری ہے تو کیوں

جبکہ خدا باقی ہے


اور باقی سے فنا کی مجھے اُمید نہیں ہوسکتی

پھر پس پردہء ظاہر


یہ کچوکوں کا تسلسل کیا ہے ؟

میرے اللہ !


وہ کیا چیز ہے جس نے مجھ کو

روزِ اوّل سے بس اک دانہء اسپند بنا رکھا ہے


یہ کہیں تُو تو نہیں ؟

شاعر کا نام :- احمد ندیم قاسمی

کتاب کا نام :- انوارِ جمال

دیگر کلام

نہیں بے مُدّعا تخلیقِ انساں

انسان کو عرش تک اُبھاروں کیسے ؟

عکس اُس کا بہر رنگ نظر آتا ہے

نہ چھیڑو مجھ سے باتیں خیر و شر کی

میں شہر سے تو بظاہر سفر پہ نکلا ہوں

اک جہاں یہ ہے اک جہاں آگے

ہر نظارے سے آشکار خدا

اُس کا ہر سانس اک سبق ٹھہرا

بوئے فردوس ہو کفن کے ساتھ

ہاتھ میں عشق کی کلید رکھو