مَستی فرقت کی ہو یا غربت کی

مَستی فرقت کی ہو یا غربت کی

مَست کہتا ہے بات جَراءت کی


!بُو ترابی شراب خانے سے

پی کے آنا ہے بات ہمّت کی

شاعر کا نام :- واصف علی واصف

کتاب کا نام :- شبِ راز

دیگر کلام

ڈوبتی جاتی ہیں نبضیں اور نظر بے نُور ہے

یہ پوچھنا ہے مجھے اپنی فرد عصیاں سے

میں کس سے جا کے پوچھوں منزل کدھر ہے میری

آنسو بصد خلوص بہانے کا وقت ہے

جراءت ِ مدح نبیﷺ کر تو رہا ہوں، لیکن

بتا سکوں گا کہاں میں قلندری کیا ہے

یا علی ؑ کہہ دیا تو کیا حاصِل

السّلام اے ساقئ کوثرؐ کے نُور

سیِّدو سرور محمدؐ کے جمال

السّلام اے کہ امامِ قبلتین