نورِ حق نے اس طرح پیکر سنوارا نور کا

نورِ حق نے اس طرح پیکر سنوارا نور کا

نور گویا بن گیا ہے استعارہ نور کا


ہے کوئی ایسا بشر اس عالمِ امکان میں ؟

سر سے پاؤں تک ہو جو اک شاہ پارانور کا


نور دل ہے، نور سینہ، نور پیکر، نور جاں

نور کا سورہ ہے گویا استعارا نور کا


جو حجاباتِ خداوندی میں چمکا مدّتوں

جالیوں سے دیکھ آیا ہوں وہ تارا نور کا


رات زلفوں کی بلائیں لے کے پیچھے ہٹ گئی

سانس لے کر صبح نے صدقہ اتارا نور کا


انشراحِ قلبؔ و سینہ کا بیاں قرآن میں

نور کے دریا میں گویا ہے یہ دھارا نور کا


سرحدِ قوسین سے بھی ماورا معراج کو

بزمِ ” او ادنیٰ“ میں چمکا اک ستارا نور کا


چاند، سورج، کہکشاں تارے، دھنک اور روشنی

نور کے دریُوزہ گر پائیں اُتارا نور کا

کتاب کا نام :- چراغ

پہنچ گیا جو تمہارے در پر

بندہ قادر کا بھی قادر بھی ہے عبدالقادر

تیری ہر اک ادا علی اکبر

واہ کیاجُود و کرم ہے شَہِ بَطْحا تیرا

ہے دل میں عشقِ نبیﷺ کا جلوہ

ناؤ تھی منجدھار میں تھا پُر خطر دریا کا پاٹ

بے عمل ہوں مرے پاس کچھ بھی نہیں

خدایا بے پراں نوں پر لگا دے

قربان میں اُن کی بخشش کے

یاشَہَنشاہِ اُمَم! چشمِ کرم