ناؤ تھی منجدھار میں تھا پُر خطر دریا کا پاٹ

ناؤ تھی منجدھار میں تھا پُر خطر دریا کا پاٹ

جگ کے کھیون ہار آئے مل گیا کشتی کو گھاٹ


بول بالا سارے جگ میں ہوگیا جب دین کا

مل گیا مٹی میں کفر و شر کا سارا ٹھاٹ باٹ


سنگ ریزے بول اٹھے بوجہل کی مٹھی میں جب

ہو گئے لب گنگ ظالم کا ہوا چہرہ سپاٹ


خرقہ پوشانِ حرم کے زیرِ پا ہے خسروی

دیکھیے مت ان کی بوسیدہ لباسی ، ٹوٹی کھاٹ


تھے صحابہ مقتدر عالم کے پھر بھی ان کے پاس

بوریا مسند تھا بستر تھے چٹائی اور ٹاٹ


حُبَّ سرور کے مخالف رہزنِ ایماں ہیں جو

کلمہ گو ہو کر مسلمانوں سے وہ کرتے ہیں گھاٹ


اسوۂ سرکار پر جینا ہے ان کا واقعی

پیکرِ اخلاق ہیں جو رہتے ہیں سادہ سپاٹ


اپنی دہلیزِ کرم پر پھر بلا لیجے حضورؐ

ہو گیا ہے ہجرِ طیبہ میں ہمارا دل اُچاٹ


چل درِ سرور پہ احسنؔ بھر لے دامانِ مراد

آج بھی طیبہ میں وا ہیں ان کی رحمت کے کپاٹ

شاعر کا نام :- احسن اعظمی

کتاب کا نام :- بہارِ عقیدت

دیگر کلام

لکھتا رہوں میں حمدِ خدا نعتِ رسالت

ہو کرم کر سکوں رقم مدحت

ممکن نہیں نبیؐ کی بیاں مجھ سے ہوں صفات

طیبہ کے حسیں مرقدِ انوار کی چوکھٹ

آمد ہے نبی کی مکے میں ہر سمت ملک کا ہے جمگھٹ

سلطانِ زمن احمدِ مختار کے باعث

بے فیض تیرا عشق عقیدت تری عبث

ڈبو دیں گے مرا بیڑا حوادث

تشریف لائی ذاتِ رسالت مآب آج

چھائی ہوئی ہر سمت ہے رحمت کی گھٹا آج