لکھتا رہوں میں حمدِ خدا نعتِ رسالت

لکھتا رہوں میں حمدِ خدا نعتِ رسالت

کافی ہے مری فکرِ رسا کو یہ سعادت


جس شے کی ہے سرکار سے ادنیٰ سی بھی نسبت

مومن کی نگاہوں میں ہے وہ لائقِ عظمت


وہ دل بخدا ہو نہیں سکتا دلِ مومن

جس دل میں نہ ہو سرورِ کونین کی عظمت


یہ کیسا پیمبر کی غلامی کا ہے دعویٰ

ہم ترک کیے بیٹھے ہیں سرکار کی سنت


اللہ کے محبوب کی بعثت کا ہے صدقہ

یہ ارض و سما، لوح و قلم، کرسی و جنت


زاہد ترا دل عشقِ رسالت سے ہے خالی

کام آئیں گے عقبیٰ میں نہ تقویٰ نہ عبادت


اپنا ہے یہ ایمان کہ فرمائیں گے آقا

ہم امّتِ عاصی کی سرِ حشر شفاعت


کس منہ سے میں جاؤں گا درِ شاہِ عرب پر

دامن میں نہیں کچھ بھی بجز اشکِ ندامت


کچھ پاس رہے یا نہ رہے غم نہیں اس کا

یا رب دمِ آخر رہے ایمان سلامت


خوش بخت ہے احسؔن کہ تو مدّاحِ نبی ہے

بخشی ہے خدا نے تجھے معراجِ سعادت

شاعر کا نام :- احسن اعظمی

کتاب کا نام :- بہارِ عقیدت

دیگر کلام

ترے زہد و تقویٰ فضول ہیں ترے صوم و سجدہ گری فریب

مجھ کو دکھلا دے دیارِ شہِ بطحا یا رب

آپ آقائے دو عالم سیّدِ ابرار آپؐ

روشن ہوئے کریمیِ پیغمبراں کے دیپ

آدم کا افتخار ہیں خیر البشر ہیں آپؐ

ہو کرم کر سکوں رقم مدحت

ممکن نہیں نبیؐ کی بیاں مجھ سے ہوں صفات

طیبہ کے حسیں مرقدِ انوار کی چوکھٹ

آمد ہے نبی کی مکے میں ہر سمت ملک کا ہے جمگھٹ

ناؤ تھی منجدھار میں تھا پُر خطر دریا کا پاٹ