سیّد شاکر القادری چِشتی نِظامی

حمد تیری لکھوں میں کیا مولا

مرے کریم ترے لطف اور کرم کے چراغ

نظر کا نور، دلوں کے لیے قرار دُرود

عقیدتوں کے مدینے کا تاجدار دُرود

وہ مطلعِ انوارِ سحر کیسا لگے گا

نشاطِ خواب کی صورت مرے ہنر کے چراغ

عالم کی ابتدا بھی ہے تُو انتہا بھی تُو

تُو خاتمِ کونین کا رخشندہ نگیں ہے

یارب مجھے عطا ہو محبّت حضورؐ کی

تھم تھم! کہ برسنا ہے تجھے دیدۂ تر اور

کچھ غم نہیں ہے مجھ کو حساب و کتاب کا

سرورِ سروراں فخرِ کون و مکاں

کچھ ایسی لطف و کرم کی ہوا چلی تازہ

اک نور سا تا حدِ نظر پیشِ نظر ہے

ہیں درپئے آزار ستم گر، مرے سرورؐ

میں نے شہرِ مدینہ دیکھا

لا مکاں کی خلوتوں میں جلوہ فرما آپؐ ہیں

بابِ مدحت پہ مری ایسے پذیرائی ہو

کیوں اسے حشر میں اندیشہء رسوائی ہو

نورِ حق نے اس طرح پیکر سنوارا نور کا

ایک دُرِ بے بہا ہے یا ہے قطرہ نور کا

پھر گلستانِ تخیّل میں کھلا تازہ گلاب

میں چُپ تھا ہو رہی تھی مرے ترجماں کی بات

مزے لیتا ہوں دریُوزہ گری کے

چمکا ہے شبِ تارِ تخیل میں نیا چاند

مدّت سے ہوں دریوزہ گرِ کوئے مدینہ

مُلّا کی قیل و قال غلط، گفتگو غلط

تاج لولاک لما کا ترے سر پر رکھّا

کبھی لبوں پہ مہکتا ہے وہ دعا کی طرح

ایک شعر