اک نور سا تا حدِ نظر پیشِ نظر ہے
میں اور مدینے کا سفر پیشِ نظر ہے
ہر چند نہیں تاب مگر دیکھیے پھر بھی
وہ مطلعِ انوارِ سحر پیشِ نظر ہے
جو میرے تخیّل کے جھروکے میں کہیں تھا
صد شکر و مقصودِ نظر پیشِ نظر ہے
بخشش کا وسیلہ ہے ہر اک اشکِ ندامت
کچھ خوف ہے باقی نہ خطر پیشِ نظر ہے
اس بارگہِ ناز کا صد رنگ نظارہ
ہر آن بہ اندازِ دگر پیشِ نظر ہے
ہر چند سوئے کعبہ ہیں سجدے مرے لیکن
وہ قبلہء ہر اہلِ نظر پیشِ نظر ہے
گو فردِ عمل میری گناہوں سے بھری ہے
ہر لحظہ کرم ان کا مگر پیشِ نظر ہے
کیا بام و درِ خُلد نگاہوں میں جچیں گے
فردوس کے سردار کا در پیشِ نظر ہے
مانگی تھیں جو بادیدۂ تر میں نے دعائیں
ایسی ہی دعاؤں کا اثر پیش نظر ہے
شاکر مجھے لمحاتِ حضوری ہیں میسّر
آرامِ دل و نورِ نظر پیشِ نظر ہے
شاعر کا نام :- سیّد شاکر القادری چِشتی نِظامی
کتاب کا نام :- چراغ