میں نے شہرِ مدینہ دیکھا

میں نے شہرِ مدینہ دیکھا

ایسے جیسے سپنا دیکھا


رنگ و نور کی بارش دیکھی

خوشبوؤں کا میلہ دیکھا


سرسبز و شاداب تھا سورج

سبز تھا چاند کا چہرہ دیکھا


سبز بہاریں روح پہ اتریں

جب بھی گنبدِ خضریٰ دیکھا


رحمت کی اک سبز ردا کا

کون و مکاں پر سایہ دیکھا


سبز فلک پہ جگمگ جگمگ

ایک سنہری تارا دیکھا


جالی کے پیچھے کا منظر

کیا بتلاؤں کیسا دیکھا


جبرائیل نے جو دیکھا تھا

میں نے بھی وہ تارا دیکھا


ہر الجھن میں ہر مشکل میں

راہ دکھانے والا دیکھا


ہر اک آنکھ چھلکتی دیکھی

ہر اک ہونٹ لرزتا دیکھا


پلکوں پر تاروں کی صورت

عصیاں کا کفارہ دیکھا


آنکھوں کے آگے تھا منبر

گویا خلد کا زینہ دیکھا


اک جانب محرابِ تہجد

اور اصحاب کا صفہ دیکھا


جس کا عقد خدا نے باندھا

اس جوڑے کا حجلہ دیکھا


آپؐ کے قدموں کی جانب بھی

جنت کا اک ٹکڑا دیکھا


لختِ دلِ محبوبِ خدا کا

اس جنت میں روضہ دیکھا


اپنی اماں کے پہلو میں

شبّرؑ کو آسودہ دیکھا


گنجِ شہیدانِ حرّہ کا

اک جانب نظارا دیکھا


ہر ذرے میں دھڑکن پائی

ہر پتھر کو زندہ دیکھا


ہر اک نقشِ درخشاں گویا

ماضی کا آئینہ دیکھا


تیر اندازوں کے ٹیلےسے

جنگِ احد کا نقشہ دیکھا


حضرت مصعب، عبداللہ کو

اس میدان میں سویا دیکھا


حضرتِ حمزہ کی بالیں پر

ایک کبوتر بیٹھا دیکھا


سانسیں لیتا تھا ہر منظر

ہر اک نقش روانہ دیکھا


صبح کی انگڑائی بھی دیکھی

شام کو کیف میں ڈوبا دیکھا


میں نے شہر مدینہ دیکھا

ایسے جیسے سپنا دیکھا

کتاب کا نام :- چراغ

معراج دی راتیں آقا نے جبریل نوں ایہہ فرمایا اے

اس طرف بھی شاہِ والا

ہر صبح ہے نورِ رُخِ زیبائے محمدﷺ

اٹھی جدھر نگاہ رسالت مآبؐ کی

ساڈی جھولی وچ رحمت دا خزینہ آگیا

کونین میں یُوں جلوہ نُما کوئی نہیں ہے

عشق ایسا ملال دیتا ہے

خرد کی موت بنی ہے جنوں کا پہلا قدم

بطحا کو جانے والے

ہم بناوٹ سے نہیں کہتے کہ ہم تیرے ہیں