عالم کی ابتدا بھی ہے تُو انتہا بھی تُو

عالم کی ابتدا بھی ہے تُو انتہا بھی تُو

ہر سو تعینات میں جلوہ نما بھی تُو


شامِ شبِ الست کا بدر الدُجیٰ بھی تُو

اور صبحِ کائنات کا شمس الضحیٰ بھی تُو


نقطہ بھی تُو ہے، قوس بھی تُو، زاویہ بھی تُو

مرکز بھی تُو، محیط بھی تُو، دائرہ بھی تُو


تُو نُور بھی بشر بھی ہے فخرِ بشر بھی ہے

پہچان ہے بشر کی خُدا کا پتا بھی تو


صدیاں تری کنیز، تو لمحے ترے غلام

نُورِ ازل بھی تُو ہے اَبد کی گھٹا بھی تو


اے کہ طبیبِ علتِ ارواحِ عاصیاں

میری پناہ تو ہے مرا آسرا بھی تُو


پہنچا کہاں کہاں ترے جلووں کا رنگ و نُور

مہمان عرش تُو ہے نشینِ حِرا بھی تُو


گنجینۂ صفات تری ذات یا نبیؐ

شاھدؐ بھی تو بشیرؐ بھی تو مصطفیٰؐ بھی تُو


آیا تجھی سے فہم و فراست میں انقلاب

معمارِ قصرِ حکمت و فکرِ رسا بھی تُو

کتاب کا نام :- چراغ

قرآن میں دیکھا تو انداز نرالا ہے

کھو یا کھو یا ہے دل

آفتاب ِ رسالت نہ اُبھرا تھا جب

خُدایا نئی زندگی چاہتا ہوں

نظر آتے ہیں پھول سب کے سب

زندگی دا مزا آوے سرکار دے بوہے تے

چاند،سورج میں،ستاروں میں ہے جلوہ تیرا

طواف اُن کا کرے بزرگی

دیکھتی رہ گئیں سماں آنکھیں

پاٹ وہ کچھ دَھار یہ کچھ زَار ہم