بابِ مدحت پہ مری ایسے پذیرائی ہو

بابِ مدحت پہ مری ایسے پذیرائی ہو

لفظ خوش بُو ہوں، خیالات میں رعنائی ہو


ہو اگر بزم ترا نام رہے وردِ زباں

تجھ کو سوچوں جو میسر کبھی تنہائی ہو


وادئ جاں میں پڑاؤ ہو تری خوشبو کا

حجرۂ دل میں تری انجمن آرائی ہو


چاک کرتی ہیں قبا، فرطِ ہوا سے کلیاں

اے صبا! کوچۂ دل دار سے ہو آئی ہو ؟


وہ تکلّم کہ جسے حسنِ سماعت ترسے

وہ تبسّم کہ ہر اک پھول تمنّائی ہو


ناقہء شوق اس انداز سے طے ہو یہ سفر

لَے حجازی ہو تری، زمزمہ صحرائی ہو


کس نے دیکھا ہے بہم شام و سحر کو شاکر

ہاں اگر زلف وہ رخسار پہ لہرائی ہو

کتاب کا نام :- چراغ

اے ختم رُسل مکی مدنی

کس نے بخشی ہے تاریکیوں کو ضیاء

پائی نہ تیرے لطف کی حد سیّد الوریٰ

جب حُسن تھا اُن کا جلوہ نما انوار کا عَالم کیا ہوگا

میرے حسین تجھے سلام

کیا ہے ہجر کے احساس نے اداس مجھے

میرے کملی والے کی شان ہی نرالی ہے

جب لیا نام نبی میں نے دعا سے پہلے

بے خود کئے دیتے ہیں انداز حجابانہ

کتابِ مدحت میں شاہِ خوباں کی چاہتوں کے گلاب لکھ دوں