یارب مجھے عطا ہو محبّت حضورؐ کی

یارب مجھے عطا ہو محبّت حضورؐ کی

بس جائے میرے دل میں عقیدت حضورؐ کی


جاگوں اگر جمالِ نبی ہو نگاہ میں

سوؤں تو ہو نصیب زیارت حضورؐ کی


ابھرا ہے پھر جبیں پہ عرق انفعال کا

پھر مائلِ کرم ہے عنایت حضورؐ کی


اسریٰ بعبدہٖ کا شرف اور ہے کسے

عرشِ خدا ہے مسندِ رفعت حضورؐ کی


روزِ ازل سے تابہ ابد قرن قرن ہے

از فرش تابہ عرش حکومت حضورؐ کی


خُورشید و ماہ تیرہ جبیں ہوں اگر نہ ہو

اس کائناتِ نُور میں طلعت حضورؐ کی


لذّت شناس جس سے مشامِ جہاں ہُوا

وہ بوئے دل نواز ہے نکہت حضورؐ کی


جس سے ہمارے ذوق کو تابندگی ملی

وہ حسنِ بے مثال ہے صورت حضورؐ کی


نعتِ رسولِ پاک ہے لفظوں کی آبرو

زیبائشِ کلام ہے مدحت حضورؐ کی


رحمت ہیں آپ سارے جہانوں کے واسطے

یکساں ہے جن و انس پہ نعمت حضورؐ کی


احسان، عدل، رحم، کرم، درگزر، عطا

ہر ایک بے مثال ہے عادت حضورؐ کی


صدیق کو صداقتِ شاہِ امم ملی

فاروق کو ملی ہے عدالت حضورؐ کی


عثمانِ باحیا کو سخاوت ہوئی عطا

مولا علیؑ کو جرأت و ہمت حضورؐ کی


وحشت شناس بھی ہوئے تہذیب آشنا

اخلاقِ بے کراں ہے شریعت حضورؐ کی


کھانے کو نانِ جَو ہے تو سونے کو بوریا

اللہ رے یہ طرزِ معیشت حضورؐ کی


لرزاں ہیں جس سے قیصر و کسریٰ کے تخت و تاج

سطوت حضورؐ کی ہے یہ صولت حضورؐ کی


پتھر شکم پہ، نعرہء تکبیر لب پہ ہے

دیکھو تو استقامت و ہمت حضورؐ کی


دل پر مرے اترتے نہ مضمون نعت کے

ہوتی اگر نہ چشمِ عنایت حضورؐ کی


شاکر گناہ گار اگر ہوں تو کیا ہوا

حصّہ ہے عاصیوں کا شفاعت حضورؐ کی

کتاب کا نام :- چراغ

دیگر کلام

عقیدتوں کے مدینے کا تاجدار دُرود

وہ مطلعِ انوارِ سحر کیسا لگے گا

نشاطِ خواب کی صورت مرے ہنر کے چراغ

عالم کی ابتدا بھی ہے تُو انتہا بھی تُو

تُو خاتمِ کونین کا رخشندہ نگیں ہے

تھم تھم! کہ برسنا ہے تجھے دیدۂ تر اور

کچھ غم نہیں ہے مجھ کو حساب و کتاب کا

سرورِ سروراں فخرِ کون و مکاں

کچھ ایسی لطف و کرم کی ہوا چلی تازہ

اک نور سا تا حدِ نظر پیشِ نظر ہے