نشاطِ خواب کی صورت مرے ہنر کے چراغ
ثنا کے طاق پہ رکھے ہیں چشمِ تر کے چراغ
خوشا وہ ارضِ مدینہ، خوشا وہ شام و سحر
نظر میں آج بھی رقصاں ہیں بام و در کے چراغ
نشانِ منزلِ مقصود کیا ملے گا انہیں
نظر میں جن کی نہیں تیری رہ گذر کے چراغ
وہ ایک اسم کہ طغریٰ جبینِ وقت پہ ہے
اُسی کے فیض سے روشن مرے ہنر کے چراغ
ابوذری مرا شیوہ قرار پایا ہے
مری نظر میں ہیں بے نور سیم و زر کے چراغ
بہت قریب کا رشتہ ہے خاک و نور کے بیچ
حریمِ نور میں روشن ہوئے بشر کے چراغ
یہ قیصری، یہ جمی، یہ کئی، یہ فغفوری
ترے چراغ کے آگے اِدھر اُدھر کے چراغ
ہے چاند ماند، ستارے بھی بجھ گئے سارے
جلے ہیں جب سے مدینے کے تاجوَر کے چراغ
حضورؐ ہاتھ سے چھوٹا ہے رشتۂ وحدت
جَلا رہے ہیں مرے گھر کو، میرے گھر کے چراغ
ہے شمعِ دل کو طلب بزمِ ناز کی شاکر
طوافِ گنبدِ خضریٰ میں ہیں نظر کے چراغ
شاعر کا نام :- سیّد شاکر القادری چِشتی نِظامی
کتاب کا نام :- چراغ