تُو خاتمِ کونین کا رخشندہ نگیں ہے

تُو خاتمِ کونین کا رخشندہ نگیں ہے

تُو فخرِ رسل مہبطِ جبریلِ امیں ہے


لفظوں کے مُقدّر میں کہاں اتنی رسائی

اوصاف بیاں ہوں ترے ممکن ہی نہیں ہے


لمحے ترے دربار میں چپ چاپ کھڑے ہیں

تعظیم کو خم صبحِ سعادت کی جبیں ہے


رہبر کی نہ رہوار کی ہے تجھ کو ضرورت

تیرے لیے دو چار قدم عرش بریں ہے


اے مظہرِ آیاتِ دَنَا و فتدلیّٰ

تُو دیدۂ قوسین کی عظمت کا امیں ہے


سرتاجِ فصیحانِ عرب، گنجِ بلاغت

اُمّی ہے مگر صاحبِ قرآنِ مبیں ہے


اے مہرِ عرب انجمن آرائے مدینہ

فردوسِ نظر تجھ سے مدینے کی زمیں ہے

کتاب کا نام :- چراغ

آقا کی زلفِ نور سے عنبر سحر ملے

میری زندگی کا تجھ سے یہ نظام چل رہا ہے

تو خُود پیام جلی تھا پیامبر تو نہ تھا

کیڈا سوہنا نام محمدؐ دا

اللہ کی رَحمت سے پھر عزمِ مدینہ ہے

عِشق حضرتؐ نہیں تو کچھ بھی نہیں

افسوس! بہت دُور ہوں گلزارِ نبی سے

تو شاہِ خوباں، تو جانِ جاناں

سو بسو تذکرے اے میرِؐ امم تیرے ہیں

رہی عمر بھر جو انیسِ جاں وہ بس آرزو ئے نبیؐ رہی