درِ نبی سے ہے وابسطہ نسبتیں اپنی

درِ نبی سے ہے وابسطہ نسبتیں اپنی

اسی لیے ہیں بلندی پہ قسمتیں اپنی


انہی کا ذکر اپنی نجات کا سامان

انہی کے نام سے قائم ہیں عزتیں اپنی


میرے حضور کی نظروں میں جو بھی آجائے

خدا بھی اس پہ ہی کرتا ہے رحمتیں اپنی


نبی کا جو نہ ہوا وہ ہمارا کچھ بھی نہیں

فقط غلام نبی سے ہیں الفتیں اپنی


میرے کریم میرے حال دل سے واقف ہیں

میں کیوں کہوں گا کسی سے ضرورتیں اپنی

شاعر کا نام :- نامعلوم

ربّ سچّے دیاں اُچیاں شاناں

میرے دل میں ہے یادِ محمد ﷺ

بڑی اُمید ہے سرکارﷺ قدموں میں بُلائیں گے

انوار دا مینہ وسدا پیا چار چوفیرے تے

اپنے دامانِ شفاعت میں چھُپائے رکھنا

زمانے کی نگاہوں سے چھپاکر اُن

آنکھوں میں ترا شہر سمویا بھی

بَہُت رنجیدہ و غمگین ہے دل یارسولَ اللہ

تیری ہر اک ادا علی اکبر

دلِ عشاق شہرِ نور سے آیا نہیں کرتے