آج اشک میرے نعت سنائیں تو عجب کیا

آج اشک میرے نعت سنائیں تو عجب کیا

سن کر وہ مجھے پاس بلائیں تو عجب کیا


ان پر تو گناہ گار کا سب حال کھلا ہے

اس پر بھی وہ دامن میں چھپائیں تو عجب کیا


منہ ڈھانپ کے رکھنا کہ گناہ گار بہت ہوں

میت کو میری دیکھنے آئیں تو عجب کیا


دیدار کے قابل تو نہیں چشمِ تمنا

لیکن وہ کبھی خواب میں آئیں تو عجب کیا


نہ زادِ سفر ہے نہ کوئی کام بھلے ہیں

پھر بھی مجھے سرکار بلائیں تو عجب کیا


حاصل جنہیں آقا کی غُلامی کا شرف ہے

ٹھوکر سے وہ مُردوں کو جِلائیں تو عجب کیا


وہ حسنِ دو عالم ہیں ادیب ان کے قدم سے

صحرا میں اگر پھول کھل آئیں تو عجب کیا


آج اشک میرے نعت سنائیں تو عجب کیا

سن کر وہ مجھے پاس بلائیں تو عجب کیا

شاعر کا نام :- حضرت ادیب رائے پوری

اسم اللہ دا لب تےکھڑیا اللہ اللہ اللہ ہو

وسے تیرا دربار پیا پا جھولی خیر فقیراں نوں

لائقِ حمد بھی، ثنا بھی تو

آہ! رَمضان اب جا رہا ہے

کرم کے بادل برس رہے ہیں

راہ پُرخار ہے کیا ہونا ہے

سنا کر نعت ذوقِ نعت کی تکمیل کرتے ہیں

اُنؐ کی نبیوں میں پہچان سب سے الگ

ہر حَال میں انہیں کو پکارا جگہ جگہ

جب حُسن تھا اُن کا جلوہ نما انوار کا عَالم کیا ہوگا