کبھی رنج آئے نہ آلام آئے

کبھی رنج آئے نہ آلام آئے

جہاں مصطفیٰ کا یہ انعام آئے


تمنا تھی یارب مرے گھر بھی اک دن

یہ اک موئے زُلفِ سیہ فام آئے


مرے گھر کے دیوار و در آج مہکے

مرے اشک آخر مرے کام آئے


فرشتوں کی آمد ہے آج اس مکاں میں

کوئی صبح آئے کوئی شام آئے


ارے زائرو یہ ادب کی ہے منزل

کہیں بے ادب کا نہ الزام آئے


سوائے درودوں کے لب پر نہ کچھ ہو

جو آئے محمد کا ہی نام آئے


مریض ایک رو رو کہ یہ کہہ رہا ہے

صحت کا میرے ہاتھ میں جام آئے


ادیبؔ آپ کا گھر ہے جنت سے بڑھ کر

جہاں میرے سرکار مرے کام آئے

شاعر کا نام :- حضرت ادیب رائے پوری

کتاب کا نام :- خوشبوئے ادیب

روضے دے چفیرے نیں غلاماں دیاں ٹولیاں

عام ہیں آج بھی ان کے جلوے ، ہر کوئی دیکھ سکتا نہیں ہیں

آج کا دن شہِ دل گیر کا دن ہے لوگو

احمد کہوں کہ حامدِ یکتا کہوں تجھے

کہاں مَیں کہاں آرزوئے مُحمدؐ

بے عمل ہوں مرے پاس کچھ بھی نہیں

ہَے ذِکر ترا گلشن گلشن سُبحان اللہ سُبحان اللہ

اس طرف بھی شاہِ والا

در عطا کے کھلتے ہیں

الہامِ نعت ہوتا ہے چاہت کے نور سے