آنسو مری آنکھوں میں نہیں آئے ہوئے ہیں

آنسو مری آنکھوں میں نہیں آئے ہوئے ہیں

دریا تیری رحمت کے یہ لہرائے ہوئے ہیں


اللہ ری حیاء حشر میں اللہ کے آگے

ہم سب کے گناہوں پہ وہ شرمائے ہوئے ہیں


میں نے چمن خلد کے پھولوں کو بھی دیکھا

سب آگے ترے چہرے کے مرجھائے ہوئے ہیں


بھاتا نہیں کوئی ، نظر آتا نہیں کوئی

دل میں وہی آنکھوں میں وہی چھائے ہوئے ہیں


روشن ہوئے دل پر تو رخسار نبیﷺ سے

یہ ذرے اسی مہر کے چمکائے ہوئے ہیں


شاہوں سے وہیں کیا جو گدا ہیں ترے در کے

یہ اے شاہ خوباں تری شہ پائے ہوئے ہیں


آئے ہیں جو وہ بے خودی ءِ شوق کو سن کر

اس وقت امیر آپ میں ہم آئے ہوئے ہیں

شاعر کا نام :- امیر مینائی

جن کو نبیؐ کی ذات کا عرفان مل گیا

خاک سورج سے اندھیروں کا ازالہ ہوگا

ذاتِ نبی کو قلب سے اپنا بنائیے

اے خدا شکر کہ اُن پر ہوئیں قرباں آنکھیں

مجھ کو تو اَپنی جاں سے بھی

اللہ اللہ کیا کر

مجھے دَر پہ پھر بُلانا مَدنی مدینے والے

افسوس! بہت دُور ہوں گلزارِ نبی سے

سخا بن کر وفا بن کر کَرم بن کر عطا بن کر

خالی کبھی ایوانِ محمدؐ نہیں رہتا