روشن جہاں میں ہر جا پاتا ہوں نور تیرا
ہر شے میں دیکھتا ہوں پیارے ظہور تیرا
از ماه تا بماہی ہے تیری بادشاہی
دکھلا رہا ہے کیا کیا عالم ظہور تیرا
گلشن میں چپکے چپکے لیتے ہیں نام غنچے
اور بلبلوں میں دیکھا ہر سمت شور تیرا
کیوں تلملا کے گرتے غش کھا کے طور پر وہ
گر چوندھیا نہ دیتا موسیٰ کو نور تیرا
گر ٹھیرتا تصور تیرا ہمارے دل میں
کچھ پوچھتے نشاں ہم تجھ سے ضرور تیرا
صد حیف ہو کے انساں کچھ بھی نہ کر سکے ہم
کرتے ہیں ذکر باہم وحش و طیور تیرا
منصور کا یہ منھ تھا کہتا جو انا الحق
برپا کیا ہوا تھا سارا فتور تیرا
بنتے ہی بندہ بت پی لے مئے محبت
آنکھوں میں وہ نشہ ہے دل میں سرور تیرا
بیدم کی آرزو ہے ہر دم یہ جستجو ہے
مل جائے کاش اس کو قرب و حضور تیرا
شاعر کا نام :- بیدم شاہ وارثی
کتاب کا نام :- کلام بیدم