تن پہ احرام لپیٹا تو خُدا یاد آیا
اُٹھ گیا ذات سے پردہ تو خُدا یاد آیا
رحمتیں اُس کی مرے چاروں طرف تھیں لیکن
اپنے اعمال کو دیکھا تو خُدا یاد آیا
یوں لگا چھُو لیا ہو ہاتھ خُدا کا جیسے
حجرِ اسود کو جو چُوما تو خُدا یاد آیا
سامنے سے مِرے گُزرا مِرا سارا ماضی
کعبے کے گِرد مَیں گھُوما تو خُدا یاد آیا
ریگِ باطن پہ بہت ایڑیاں رگڑیں مَیں نے
پِیا زمزم کا پیالہ تو خُدا یاد آیا
دونوں آنکھوں سے مِری ہوگئے چشمے جاری
صفا مروہ پہ بھی دوڑا تو خُدا یاد آیا
صُورتِ حال تھی سب حشر کے میداں جیسی
ہُوا عرفات روانہ تو خُدا یاد آیا
شاعر کا نام :- مظفر وارثی
کتاب کا نام :- کعبۂ عشق