تیرا بندہ تری توصیف و ثنا کرتا ہے

تیرا بندہ تری توصیف و ثنا کرتا ہے

میرا ہر سانس ترا شُکر ادا کرتا ہے


تیرے آگے مری جُھکتی ہوئی پیشانی سے

میری ہر صُبح کا آغاز ہُوا کرتا ہے


رحمتیں دیتی ہیں آواز گُنہ گاروں کو

یہ کرشمہ بھی ترا عفو کِیا کرتا ہے


رزق پہنچاتا ہے پتّھر میں چھُپے کیڑے کو

تُو ہی سُوکھی ہوئی شاخوں کو ہرا کرتا ہے


زِندگی پر کبھی اِتراؤں نہ مرنے سے ڈروں

تُو ہی پیدا بھی کرے تُو ہی فنا کرتا ہے


تیرے الطاف کسی کے لیے مخصوص نہیں

تُو ہر اِک چاہنے والے کی سُنا کرتا ہے


خیر مقدم کِیا کرتی ہیں اُسی کا راہیں

تیرے کہنے کے مطابق جو چلا کرتا ہے


ہر کوئی تو تِری جانب نہیں راغب ہوتا

تُو جسے چاہے یہ تو فیق عطا کرتا ہے


گِیت گاتی ہیں بہاریں تِری خلّاقی کے

سینہء سنگ سے جب پھُول کِھلا کرتا ہے


بڑا ناداں ہے تجھے دُور سمجھنے والا

تو رگِ جاں سے بھی نزدیک رہا کر تا ہے

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- کعبۂ عشق

(بحوالہ معراج)اور ہی کچھ ہے دو عالَم کی ہَوا آج کی رات

اے حسینؓ ابنِ علیؓ سب کچھ لُٹایا آپ نے

تخلیق ہوا ہی نہیں پیکر کوئی تم سا

سر نامہ جمال مدینہ رسُول کا

آہ! شاہِ بحر و بر! میں مدینہ چھوڑ آیا

لب پر نعتِ پاک کا نغمہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے

ماہِ تاباں سے بڑھ کر ہے روشن جبیں

میرے آقا آؤ کہ مدت ہوئی ہے

نعتِ حضرتؐ مری پہچان ہے سبحان اللہ

نور ہی نور نہ ہو کیوں شہِ ضو بار کی بات