تیری ہی ذات اے خدا اصلِ وجُودِ دوسرا

تیری ہی ذات اے خدا اصلِ وجُودِ دوسرا

تیرے ہی نور کی جھَلک غازۂ رُوئے ما سوَا


تیرے ہی نُور سے مِلی فکر و نظر کی روشنی

تیرے ہی نور کی تو ہے شمس و قمر میں بھی ضیا


خالقِ دو جہاں بھی تو رازقِ دو جہاں بھی تو

تیرے کَرم سے مستفیض میر و فقیر و انبیا


دونوں جہاں کی نعمتیں ہیں ترے ہاتھ میں سبھی

تیرے ہی در سے جو مِلا جتنا مِلا جسے مِلا !


ارض و سما و بحر و بر سب میں ہے تو ہی جلوہ گر

تیرا ہی ذِکر کُو بہ کُو خانہ بخانہ جا بہ جا


حمد تری کرے بیاں اعظؔم بے نوا تو کیا

جب کہ تو بے مثال ہے اور کیف و کم سے ہے وَرا

شاعر کا نام :- محمد اعظم چشتی

کتاب کا نام :- کلیاتِ اعظم چشتی

یہ کرم یہ بندہ نوازیاں کہ سدا عطا پہ عطا ہوئی

عاصیوں کو دَر تمہارا مِل گیا

ہر صبح ہے نورِ رُخِ زیبائے محمدﷺ

آنکھیں رو رو کے سُجانے والے

آمدِ مصطَفیٰ مرحبا مرحبا

بلا لو پھر مجھے اے شاہِ بحرو بَر مدینے میں

نامِ خدا سے سلسلہ

خِرد صحرا کی ہستی ہے جنوں قلزم کی مستی ہے

اللہ اللہ یہ گناہگار پر شفقت تیری

مجھ پہ بھی چشم کرم اے مِرے آقا! کرنا