خِرد صحرا کی ہستی ہے جنوں قلزم کی مستی ہے

خِرد صحرا کی ہستی ہے جنوں قلزم کی مستی ہے

جنوں گنجِ گرانمایہ خرد کی بات سستی ہے


!خرد ڈوبی تفکّر میں جنوں افکار کی جنبش

جنوں حکمت کا موتی ہے خرد جس کو ترستی ہَے

شاعر کا نام :- واصف علی واصف

کتاب کا نام :- شبِ چراغ

دیگر کلام

گلی توں واردیاں

حسنین کو پھول زہرا کو کلی لکھتا رہا ہوں

مُّل کون حسین دا لا سکدا میرا پیر بڑا انمول اے

زمانے کی ہر نظر کا تارا علی تو ہے

خرد کی موت بنی ہے جنوں کا پہلا قدم

ان کی یادوں کا ہے یہ فیض برابر دیکھو

دِل میں سوز و گداز ہوتا ہے

جو گدا محوِ یاس رہتے ہیں

نکہت و رنگ و نور کا عالم

دل کو کیف و سرور مِلتا ہے